بےتعلق سے ہوگے ہم تعلق نبھاتے نبھاتے



بےتعلق سے ہوگے ہم تعلق نبھاتے نبھاتے
کبھی پاس آتے آتے کبھی دور جاتے جاتے

راہیں بنتی چلی گیں قافلوں سے آشنائی ہوگی
راہ گیر سے بن گے ہم یوں ہی چلتے چلتے

بدلتے موسم دیکھے قدرت سے بھی روشنائی ہوئی
کتنے ملے لوگ کتنے بچھڑ گے یوں ہی چلتے چلتے

اب کے برس مناے گے بھول کہ رنجشوں کو
ساون بھی شور مچاتے گے یوں ہی برستے برستے

بھولاے گے گچھ نبھاے گے نئ راہوں پہ چلتے عاشئ
جو بھی ملے گا گلے لگاے گے اسے ہنستے ہنستے
آشا عاشئ

August 2024